خلع کی صورت میں مہر کے حوالے سے عدالت عالیہ لاہور کا ایک انتہائی اہم فیصلہ !
فیصلے کی تفصیل اور مقدمے کے حقائق کی طرف جانے سے پہلے اس کیس میں عدالت عالیہ کے سامنے مندرجہ ذیل اہم سوال تھا کہ :
سوال : کیا خلع کی صورت میں لازمی ہے کہ بیوی اپنا حق مہر شوہر کے حق میں بطور بدل خلع معاف یا واپس کرے گی ؟
عدالت عالیہ کے سامنے موجود اہم سوال کی وضاحت کے بعد اس مقدمے کے مختصر حقائق کچھ یوں ہیں کہ:
اقراء سعید نامی مدعیہ کی جانب سے اپنے شوہر آصف محمود کے خلاف تنسیخ نکاح، دلا پانے نان و نفقہ ، مہر مبلغ دو لاکھ روپے اور سامان جہیز جس کی کل قیمت تقریباً تین لاکھ اکہتر ہزار روپے کے لئے ضلع ساہیوال کی مقامی عائلی عدالت سے رجوع کرتی ہے جس کا جواب آصف محمود یعنی مدعا علیہ کی جانب سے جواب دعویٰ جمع کرنے کی صورت میں کیا جاتا ہے لیکن یاد رہے کہ زوجین کے درمیان ابتدائی مصالحت ناکام ہونے کے بعد عائلی عدالت کی جانب سے پچیس مئ دو ہزار بائیس کو فیملی کورٹس ایکٹ کے دفعہ دس ( پانچ ) کے تحت تنسیخ نکاح بر بنیاد خلع کا فیصلہ صادر کر دیتی ہے جبکہ باقی تنقیحات پر فریقین کی جانب سے باقاعدہ شہادت کے بعد چھبیس اکتوبر دو ہزار تئیس کو یہ فیصلہ سنایا جاتا ہے کہ آصف محمود اپنی بیوی یعنی اقرا سعید کو پانچ ہزار روپے ماہانہ بطور نان نفقہ صرف عدت کے دورانئے کے لئے اور جبکہ سامان جہیز کی مد میں ایک لاکھ روپے ادا کرے گا لیکن بدقسمتی سے عائلی عدالت نے مہر کے حوالے سے کوئ فیصلہ نہیں دیا جس کے خلاف اپیل کی صورت میں ضلعی جج اس کیس کو دوبارہ عائلی عدالت کی طرف واپس ان ہدایات کے ساتھ بھیجتے ہیں کہ تمام تنقیحات پر فیصلہ سنایا جائے جس پر عائلی عدالت بالآخر آٹھ مارچ دو ہزار چوبیس کو فیصلہ سناتے ہیں جس میں مختصراً پہلے سنائے جانے والے فیصلے کے ساتھ ساتھ مدعیہ یعنی اقرا سعید کو مہر مؤجل یعنی دو لاکھ روپے کا بھی حق دار قرار دے دیتی ہے۔ یاد رہے کہ عائلی عدالت کے مندرجہ بالا فیصلے کے خلاف مدعا علیہ یعنی آصف محمود ضلعی عدالت سے اپیل کی صورت میں رجوع کرتا ہے لیکن شومئی قسمت وہاں سے بھی مورخہ دو ستمبر دو ہزار چوبیس کو کوئ ریلیف ملے بغیر اس کی اپیل خارج ہو جاتی ہے جس کے بعد آخر کار یہ مقدمہ آئینی درخواست یعنی
رٹ پٹیشن کی صورت میں عدالت عالیہ لاہور پہنچ جاتا ہے۔
عدالت عالیہ نے اپنے فیصلے کا آغاز درخواست گزار کے وکیل کی جانب سے پیش کئے جانے والے دلائل سے کیا ہے جس کے مطابق چونکہ زوجین کے درمیان تنسیخ نکاح بر بنیاد خلع ہوئ ہے تو ایسی صورت میں بیوی یعنی اقرا سعید کو مہر کے لئے دعویٰ نہیں کرنا چاہیے تھا اور اپنے اس نکتے کے لئے انھوں نے سپریم کورٹ کے مشہور فیصلے محمد عارف بنام صائمہ نورین وغیرہ پر انحصار کیا ہے جبکہ سامان جہیز کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ چونکہ شہادت کے دوران یہ بات ثابت ہوچکی ہے کہ اقرا سعید کے والدین کی معاشی حالت ایسی نہ تھی کہ وہ اپنی بیٹی کو جہیز دلا پاتے۔یہاں پر یاد رہے کہ اقرا سعید یعنی بیوی کی جانب کوئ بھی پیش نہیں ہوا تو بدیں وجہ ان کی غیر موجودگی میں یہ مقدمہ یکطرفہ چلایا گیا۔
عدالت عالیہ نے درخواست گزار یعنی آصف محمود کے وکیل کے دلائل سننے کے بعد فیصلے کی ابتداء سامان جہیز والے قضیے سے کی اور یہ قرار دیا کہ چونکہ جہیز کی ادائیگی کی رسم ہمارے ہاں بہت زیادہ سرایت کر چکی ہے اور والدین چاہے ان کی معاشی حالت کیسی بھی ہو لیکن پھر بھی وہ جہیز ادا کرتے ہیں اور چونکہ درخواست گزار خود بھی جواب دعویٰ میں کچھ چیزوں کی بابت اقرار کر چکا ہے تو اس لئے نچلی عدالتوں کی جانب سے سامان جہیز کی مد میں ایک لاکھ روپے کا فیصلہ بالکل مناسب ہے اور اسی لئے اس کو برقرار رکھا ہے۔
سامان جہیز کا قضیہ حل کرنے کے بعد عدالت عالیہ نے مقدمے کے سب سے اہم مسئلے یعنی حق مہر کا رخ کیا ہے اور اس بابت یہ واضح کیا ہے کہ نکاح کے وقت اقرا کا حق مہر دو لاکھ روپے مہر مؤجل طے ہوا تھا لیکن مہر کے حوالے سے درخواست گزار یعنی آصف محمود نے پہلے تو یہ کہا کہ وہ ادا کر چکا ہے لیکن دوران شہادت اس میں ناکامی کے بعد درخواست گزار نے اب یہ التجا سامنے رکھی ہے کہ خلع کی صورت میں مدعیہ مہر کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔ یہاں پر عدالت نے فیملی کورٹس ایکٹ کے دفعہ دس ( پانچ ، چھ ) کے حوالے سے لکھا ہے کہ چونکہ مندرجہ بالا دونوں دفعات صوبہ پنجاب میں دو ہزار پندرہ سے نافذ العمل ہیں لیکن یاد رہے کہ وفاقی شرعی عدالت اپنے تاریخ ساز فیصلے عمران انور خان کیس میں ان دونوں دفعات کو خلاف اسلام ہونے کی وجہ سے کالعدم قرار دے چکی ہے لیکن یہ فیصلہ یعنی عمران انور خان کیس کا فیصلہ یکم مئ دو ہزار بائیس کو آیا ہے جب کہ موجودہ کیس میں خلع کا فیصلہ پچیس مئ دو ہزار بائیس کو آیا ہے یعنی کہ جس قانون کے تحت خلع دیا گیا وہ فیصلے کے وقت کالعدم تھا۔ اس کے بعد فاضل عدالت نے ایک بحث طلاق اور خلع کے درمیان فرق پر باندھ کر یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ اگر خلع محض نا پسندیدگی کی بنیاد پر مانگی جا رہی ہو تو پھر حاصل شدہ حق مہر قابل واپسی ہو جاتا ہے لیکن اگر خلع کسی بنیاد پر مانگی جا رہی ہو تو پھر یہ لازمی نہیں ہے کہ عورت حق مہر واپس کرے گی بلکہ عدالت اس بات کا تعین کرے گی کہ کتنا حق مہر واپس کرنا چاہئے۔ یاد رہے کہ مندرجہ بالا بحث کے بعد عدالت عالیہ نے نکاح نامے کی حیثیت کا رخ کر کے یہ لکھا ہے کہ مہر مؤجل کی ادائیگی شوہر کی زمہ داری ہے اور اس زمہ داری سے ابراء کے لئے قطعا یہ کافی نہیں ہے کہ عورت خلع مانگے تو شوہر مہر سے بری ہو جائے گا۔ یہاں پر عدالت نے صراحت کے ساتھ لکھا ہے کہ خلع کی صورت میں حق مہر کا دار و مدار عورت کی جانب سے خلع مانگنے کے طریقہ کار کے ساتھ جڑا ہوا ہے۔ اگر کہیں عورت بغیر کسی وجہ کے یعنی فقط نا پسندیدگی کی بنیاد پر خلع مانگے تو ایسی صورت میں عورت مہر کا حق کھو دیتی ہے لیکن اگر عورت خلع شوہر کے برتاؤ کی وجہ سے مانگے تو وہ مہر مؤجل کی حق دار ہوگی اور چونکہ اس کیس میں بھی عورت کے خلع کی وجہ سے شوہر کا برتاؤ ہے اور یہ بات جا بجا شہادت سے بھی ثابت ہورہی ہے تو اس لئے بیوی مکمل حق مہر مؤجل کے حصول کی حق دار ہے۔ یاد رہے کہ اس کے بعد عدالت عالیہ نے محمڈن لا پر انحصار کر کے یہ بات بھی ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ زوجین کے درمیان مہر کی ادائیگی خلوت صحیحہ کے ساتھ ہی لازم ہو جاتی ہے اور چونکہ اس مقدمے میں بھی زوجین کے درمیان رشتہ نو سال تک رہا ہے اور اس دوران بیوی نے حقوق زوجیت بھی ادا کئے ہیں تو اس لئے عدالت نے شوہر یعنی آصف محمود کے آئینی درخواست کو خارج کرتے ہوئے بیوی یعنی اقرا سعید کو مہر مؤجل کا حق دار قرار دے دیا۔
اس انتہائی اہم فیصلے کا خلاصہ یہ ہے کہ اگر کہیں عورت بغیر کسی وجہ کے یعنی فقط نا پسندیدگی کی بنیاد پر خلع مانگے تو ایسی صورت میں عورت مہر کا حق کھو دیتی ہے لیکن اگر عورت خلع شوہر کے برتاؤ کی وجہ سے مانگے تو وہ مہر مؤجل کی حق دار ہوگی۔
یہ انتہائی اہم فیصلہ عدالت عالیہ لاہور کے جج؛ جسٹس راحیل کامران نے لکھا ہے اور اس کو Writ Petition No. 68712 of 2024 پر پڑھا اور دیکھا جا سکتا ہے